Soni Ghoud by Habza Maqsood 16 December Special Article


Online Urdu Novel Soni Ghoud by Habza Maqsood 16 December Black Day Special Article Downloadable in Free Pdf format and Online Reading Posted on Novel Bank.

 دسمبر سپیشل ۔۔۔

بلیک ڈے ۔۔۔

یشمہ اور مکرم کے دو بیٹے تھے ۔۔

حمزہ خان اور حماد خان ان کے آنگن کے یہ دونوں پھول خدا نے ان کو آٹھ سال بعد عطاء کیے تھے ۔۔۔

اس لئے ماں باپ دونوں کے دھيان میں ہر وقت یہی دونوں ہوتے ۔۔۔

مکرم تو پھر بھی کاروبار کے سلسے میں کبھی کہیں  دور چلے جاتے اور بچے ان کی نظر سے اوجھل ہو جاتے....

 مگر ۔۔۔

یشمہ تو کبھی واشروم تک ان دونوں کو تنہا چھوڑ کے نہ جاتی کسی نہ کسی کو پاس چھوڑ کر جاتی ۔۔۔۔

اگر دونوں میں سے بھی کوئی جاگ رہا ہوتا تو گھر کا کام کاج چھوڑ کر گود میں لے کے بیٹھی رہتی ۔۔۔

اور ساسوں ماں سے کلاس لگتی خدا نے کوئی انوکھی اولاد نہیں دی سب کے بچے ہوتے ہے 
کام اور اولاد ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہے 

مگر 

تم پتہ نہیں کیوں ان کے گرد محوں رقص ہو چکی ہو ۔۔۔

اور یشمہ ہنس کر ٹال جاتی کبھی ان باتوں کا برا نہ مانتی ..

کبھی موڈ میں ہوتی تو بول دیتی انوکھی نہ سہی مگر ساری دنیا سے الگ ہے میری اولاد کتنا عرصہ رو رو کے گزارا ہے اولاد کی خاطر تو اب ان کو کیوں رونے دو ۔۔۔۔

اسی طرح اکثر مکرم چھیڑتے رہتے جب سے یہ دونوں صاحب زادے تشریف لے کےآئے ہے۔۔۔۔۔

بیگم آپ نے تو مجھے بلکل سائیڈ پہ لگا دیا ہے ۔۔

۔کبھی تو مجھے پہلے کی طرح وقت دیا کرو ۔۔۔

توبہ ہے جناب اپنی اولاد سے جلن ۔۔۔۔

تو صاف ظاہری سی بات ہے جب آپ ان دونوں میں مصروف رہو گی ہر وقت تو جلن تو ہو گی نہ ۔۔۔

تو یہ بھی یاد رکھا کرے کے یہ دونوں شادی کے بہت عرصے بعد ملے ہے مجھے آٹھ سال بلکل اسی طرح اپ کے گرد رہی ہو ۔۔۔۔

ہاں تو یہی تو بول رہا ہو مجھے عادت ڈال کر اب بیگانی سی بن گئی ہو ۔۔

جی اب اپنی یہ عادت بھول جاۓ کیوں کے سب کا وقت بس اپنے بچو کو دے سکتی ہو اگر یہ دونوں جاگ رہے ہو تو کسی کو ایک منٹ نہیں مل سکتا ۔۔۔۔

اسی طرح کی نوک جھوک چلتی رہتی 

مگر یہ بھی سچ تھا کے مکرم کو بھی اپنی جان سے بڑہ کر تھے اپنے دونوں بیٹے اور بیوی بس چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے ۔۔۔۔۔
_____________________

آج یشمہ کچن میں لگی تھی بہت جلدی میں سب کام کر رہی تھی کے بچو کے جاگنے سے پہلے پہلے کام ختم کر لے ۔۔۔۔

چاول دم پہ لگا کے ایک نظر بچو کو دیکھنے گئی تو ساتھ ہی واشروم میں نہانے کے لئے بالٹی رکھ کے آئی کے چاول دم سے اتار کر نہا لو آ کر بچے سو رہے تھے آرام سے دونوں کو باری باری پیار کر کے واپس کچن میں آ گئی ۔۔۔۔

چاول تیار ہو گے تو سالن پہلے ہی بنا چکی تھی ۔۔۔

نہانے کے لئے  کمرے کا رخ کیا تو پیچھے سے امی جان نے آواز دی بہو چائے بنا دو بہت سر درد کر رہا ۔۔۔۔۔

ادھر سے ہی واپس کچن میں مڑ گئی چائے بنائی آ کر ساتھ پینکلر دی امی کو اور اپنے کمرے میں آئی ۔۔۔

اندر داخل ہوتے ہی یشمہ کی چیخیں بلند ہوئی ۔۔
اندر کا منظر تو اتنا برا نہ تھا 

2ساله حماد نے واش روم میں پانی سے بڑی  بالٹی کا ایک ایک ڈبہ کر کے سارے کمرے میں پانی بہا دیا تھا ۔۔
خود بھی مکمل بھیگ چکا تھا ۔۔۔
یشمہ چیخیی یہ سوچ کر تھی کے اگر حماد بالٹی میں گر جاتا تو مجھے تو آواز بھی نہیں جانی تھی کچن میں بھاگ کے حماد کو پکڑا ماں کے شور سے وہ بھی ڈر گیا تھا

 ماں جی بھی اپنے کمرے سے نکل آئی دیکھ کر وہ بھی پریشان ہو گئی تھی یشمہ والا خدشہ ان کو بھی لاحق ہو گیا تھا ۔۔۔

اس واقعے کے بعد ؟؟؟؟

یشمہ نے واش روم سے پانی کی بالٹی اٹھا دی کے اس واش روم کو نہانے کے لئے بلکل بھی استمعال نہیں کیا جاۓ گا 

گزرتے دنوں میں واش روم کو لاک ہی کرنے لگ گئی مکرم کو بہت چڑ ہو رہی تھی ان باتوں سے مگر کیا کرتے جانتے تھے کے یشمہ ضرورت سے زیادہ حساس ماں ہے کچھ بھی بولنا فضول ہے ۔۔

آج ایک شادی میں جانا تھا مگر یشمہ کیسے جا سکتی تھی حماد کو ذرا سر درد تھا ماں جی کی بھی طبیعت بہتر نہ تھی ۔

مگر بات مکرم کی لاڈلی بہن کے گھر کی تھی اس کے دیور کی شادی تھی جانا بہت ضروری تھا ۔۔

ماں جی نے بہت سوچ بچار کے بعد خود ہی مشورہ دیا بیٹا مجھ پہ اعتبار نہیں ہے تو حماد کو اپنی ماما کے پاس چھوڑ جاؤ اپنی ماں پہ تو یقین ہونا چاہئے ۔۔۔۔

یشمہ کو یہ بات بہتر لگی تھی ۔۔۔
حماد کی دوا رکھی تیار کیا جاتے ہوۓ حمزہ کو ساتھ لے گئی اور حماد کو اپنی ماما کی طرف چھوڑ گئی ہزاروں باتوں  کی تعلقين کر کے ۔۔۔۔۔۔

رات کافی لیٹ واپسی ہوئی تو مکرم نے کہا رہنے دو بچہ سو گیا ہو گا طبیعت بھی خراب ہے اس کی خود صبح فجر ادا کر کے میں لے جاؤ گا مگر یشمہ کہا یہ یہ بات مان سکتی تھی کہا نہیں ہر صورت واپس لے کے جانا ہے میں ۔۔۔۔

مکرم چل پڑے اس کے میکے ۔۔

ادھر گے تو دل دھلا دینے والا منظر تھا ۔۔۔

بڑے بھائی کا بیٹا اور حماد پتہ نہیں کیسے سب سے نظر بچا کر چھت پہ چلے گے تھے ۔۔۔

اور کھیلنے کے لئے دروازہ لاک کر لیا چھت کا

اب بات یہ تھی کے دروازہ ایسا تھا کے کوئی بڑآ ہی زور لگا کر کھول سکتا تھا کسی بچے کے بس کا کام نہیں تھا رات کا آخری پہر ہو چکا تھا اور بچے عشاہ کے چھت پہ تھا ۔۔۔

پہلے یہی لگا کے گھر کے کسی کونے میں ہو گے پھر جب نہیں ملے تو اس پاس کے گھروں میں دیکھا مگر اقارت پھر گھر میں ہی بھائی نے بلند آواز میں پکارا تو ان کے ۔۔۔

بیٹے نے آواز دی بابا جانی ہم چھت پہ ہے ڈور لاک ہو گیا اب اوپن نہیں ہو رہا حماد رو رو کے سردی سے بےہوش ہو چکا ہے پھپو آ کر بہت مارے گی مجھے ۔۔۔۔۔۔۔

تب سے لے کر اب تک جان توڑ کوشش کر لی تھی دروازہ کھولنے کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا 

یشمہ تو یہ سن کر ہی پاگل ہو گئی تھی اس کے شور کی آواز سن کر اس پاس کے گھروں کے لوگ پوچھنے دیکھنے آ گے تھا سب خیریت تو ہے ۔۔۔

پتہ لگنے پہ سب کی سمجھ سے باہر تھا کیوں کے ان کا گھر چار مزله تھا اس پاس کوئی گھر ایسا نہیں تھا کے ان کی چھت کی ذریعہ چھت پہ جا سکے ۔۔۔

مکرم نے یشمہ کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر ریسکیو ٹیم کو فون کیا وہ اگلے بیس منٹ میں حاضر تھے ۔۔

اور چند ہی منٹوں میں بچے نیچے تھے ۔۔۔

یشمہ حماد کو لے کر کچھ سکون میں آئی مگر دونوں بچے بخار سے بےحال ہو چکے تھے ایک سردی دوسرا ڈر کے مارے دونوں کی حالت غیر تھی مقامی ہسپتال میں لے آئے بچے کچھ بہتر ہوۓ تو صبح گھر آ گے مگر اس واقعے کے بعد اور زیادہ حساس ہو گئی تھی ۔۔۔

جتنا مرضی کہی جانا ضروری ہوتا کبھی نہ جاتی اگر جاتی بھی تو دونوں بچو کو ساتھ لے کر جاتی ۔۔۔۔۔
_______________________

گزرتے سالوں میں سب کچھ بدل گیا تھا 
مگر 

یشمہ کی عادت محوز وہی تھی ۔۔۔

ان سالوں میں یشمہ کی ساس اللّه کو پیاری ہو گی تو پھر زمداری بھی زیادہ ہو گئی 
جب بچے اسکول جانے لگے تو تھوڑا جان کو سکون ہوا ۔۔

کیوں کے اسکول ایک محفوظ مقام تھا بچو کے لئے ۔۔۔۔۔

آج شازی آپا آئی ہوئی تھی مكرم کی بہن بچے بھی گھر ہی تھے آج چھٹی تھی ۔۔۔۔

آپا نے بہت دفعہ بازار جانے کا بول دیا تھا مگر یہ بچو کو چھوڑ کے جا ہی نہیں رہی تھی ۔۔

یشمہ دیکھو شیزا گھر ہے بچو کے پاس آپا نے اپنی 15 ساله بیٹی کا حوالہ دیا ۔۔۔

میں شیزا کے سر بچے اور گھر چھوڑ جاتی ہو جہاں کہی جانا ہو ۔۔۔۔

جی ممانی جان ماما سہی بول رہی ہے میں دیکھ لیتی ہو گھر کو بھی اور چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی کو بھی ۔۔۔

ہاں تو تم اپنے بہن بھائیوں کو دیکھ لو گی میرے بچے کیا کرے گا ۔۔۔

اگر کہی بچے موبائل دیکھ رہے ہو تو بیٹری ختم ہو گی چارج پہ لگایا تو شارٹ سرکٹ ہو گیا تو پھر ۔۔۔

یا پھر یو پی ایس کی بٹیری کو آگ لگ گئی تو بچے کیا کرے گا ۔۔۔

توبہ ممانی جان اتنی نیگیٹو ۔۔۔۔.  

ابھی شیزا بولنے ہی لگی تھی کے ماں کے اشارے پہ چپ کر گئی کیوں کے جانتی تھی آپا کے یشمہ کبھی بھی بچو کے معملے میں کچھ نہیں سن سکتی ۔۔۔۔

یشمہ بچو کو اسکول کیسے بیج دیتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔

ارے آپا یہ کیسی بات کر دی آپ نے اسکول سے محفوظ بچو کے لئے دنیا کا کوئی کونہ نہیں ہے ۔۔۔۔

ادھر تو سب بچے ہوتے ہے ۔۔۔
آپا اس بات پہ مسکرا کر رہ گئی ۔۔

بچو کو یشمہ کے پاس چھوڑ کر خود ہی بازار چلی گئی ۔۔۔

اج پتہ نہیں کیوں صبح سے حماد اسکول نہ جانے کی ضد کر رہا تھا مگر ۔۔۔
یشمہ کسی صورت نہیں مان رہی تھی ۔۔

کیوں کے آج اپنی ماما کی طرف جانا تھا

 کافی دنوں سے ان کی طبیعت خراب تھی مگر جا نہیں پا رہی تھی بچو کی وجہ سے آج سارا کام جلدی کر کے جانے کا پکا سوچ رکھا تھا ۔۔۔

حماد کو بولی دیکھو بیٹا آج میں آپ کی نانو جان کے گھر جانا ہے آپ کو ساتھ نہیں لے کے جا سکتی کیوں کے بھائی کے بچے بہت شراتی ہے چھوٹ لگ جاۓ گی کل میں گھر ہی ہو گی آپ کل چھٹی کر لینا ۔۔۔

اسی طرح باتوں میں بہلا پھسلا کے اسکول بیج دیا ۔۔۔

اور خود کاموں میں لگ گئی مگر دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا پتہ نہیں کیوں کس بات کا دھڑکا لگا تھا دل کو ۔۔۔

ابھی کام ہی ختم ہوۓ تھے کے مکرم لٹی پھٹی سی حالت میں گھر داخل ہوۓ ۔۔

یشمہ دیکھ کر ہی مرنے والی ہو گی ۔۔۔
مکرم کیا ھوا ؟؟؟؟

بلکل چپ چاپ روتے جا رہے تھے کچھ بول ہی نہ پا رہے تھے ۔۔۔

اور یشمہ کا دل پھٹ رہا تھا خاموشی سے 
مکرم بولے کچھ کیا ہوا ۔۔

کیا بولو یشمہ دنیا لٹ گئی کچھ نہیں رہا ہمارا ۔۔۔۔

ہمارے بچے جن کو تم کبھی گرم ہوا نہیں لگنے دیتی تھی ظالموں نے ان کو بےحال کر دیا سب ختم ہو گیا ۔۔۔

مکرم سہی بولے کیا ہوا ہے؟؟؟

 بچو کے اسکول میں دہشتگردوں نے حملہ کر دیا کوئی بچہ نہیں بچ سکا ۔۔۔

نہیں مکرم میرے بچو کو کچھ نہیں ہو سکتا آپ چلے مجھے لے کر ۔۔

ہاں میں تمہيں لینے کے لئے آیا ہو میرا حوصلہ ہی نہیں پڑا مردہ بچو میں اپنے بچے ڈھونڈنے کا ۔۔۔

یشمہ بےجان حالت میں آئی تھی ۔۔۔

ہر طرف بچو کا خون ماؤں کی چیخوں پکار  ۔۔۔

اپنے اپنے بچو کی میت لے کر بین ڈال رہی تھی ۔۔۔

مگر یشمہ تھی جو اپنے بچو کی میت نہ ڈھونڈ رہی تھی پکار رہی تھی اور ساتھ بول رہی تھی میرے بچے نہیں مر سکتے ۔۔۔

مکرم نے قدم آگے بڑھا کر بچو کو ڈھونڈنا چاہا مگر یشمہ اپنی پوری قوت سے واپس موڑ لیا مکرم آپ پاگل ہے کیا میرے بچے نہیں مر سکتے ۔۔۔

کتنا خیال رکھا ہے میں کبھی تنہا نہیں چھوڑا پھر کیسے ہو سکتا ہے بچو کو کچھ ؟؟؟؟؟

مكرم کے بھائی اور یشمہ کے بھائی بھی آ چکے تھے کیوں کے یہ خبر آگ کی طرح پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی ۔۔۔

اپنوں کو دیکھ کر مکرم بھی خود سے ضبط کھو چکے تھے ۔۔

کافی دیر سے یشمہ کی وجہ سے خود کو سبھال رکھا تھا مگر اپنوں کا لمس پہ کر خود پہ کنٹرول نہیں رہا ۔۔۔۔

اور اپنے بیٹے بےجان ہوتے دیکھ کر تو بلکل بھی ضبط نہیں کر سکے تھے ۔۔۔۔

یشمہ کبھی ہوش میں اور اگلے ہی لمحے ہوشوحواس سے بےگانہ ہو جاتی ۔۔۔۔۔

ایک ٹی وی اینکر اچانک مكرم کے پاس آیا اور بولا ۔۔۔

یہ وقت تو نہیں سوال جواب کا  مگر پھر بھی ایک سوال آپ سے ۔۔۔۔

کیا آپ فخر محسوس کر رہے ہے اپنے معصوم بچو کی شہادت پہ ۔۔۔۔

مکرم بہت ضبط اور مشکل سے بولے جی میں فخر محسوس کر رہا ہو کے اللّه پاک نے اس قابل سمجھا ۔۔۔

یہ سب بولتے ہوۓ مکرم کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا ۔۔۔

سوچ رہے تھے کیا کرے کے ساری زندگی کیسے گزرے گی یہ پہاڑ جیسی زندگی ۔۔۔۔

ایک دم سے یشمہ آگے آئی اور بولی ۔؟؟؟؟

ارے میں تو گھر سے زیادہ اپنی سگی ماں سے زیادہ اعتبار کیا تھا اسکول پر بتاؤ مجھے میں کیا کرو گی ساری زندگی خالی گود لے کر کہا جاؤ گی کیسے سانس لو گی کیا کرو گی ۔۔۔
مجھے جواب دو ۔۔۔۔۔

مگر ؟؟؟؟؟؟؟؟
جواب اکارت  جواب کسی کے پاس نہیں تھا اللّه پاک نے ان پھولوں کی زندگی رکھی اتنی تھی ۔۔۔۔

اتنا بول کر پھر ایک دفعہ ہوش کی دنیا سے بیگانہ ہو چکی تھی ۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔۔

اینکر کو بہت اچھی ویڈیو اور ریکارڈنگ مل چکی تھی ایک بےبس ماں کی  وہ پھر کسی اور کی تلاش میں نکل چکا تھا ۔۔۔۔

ختم شد 

Related Posts

Subscribe Our Newsletter