Kali Khilny Lagi Season 2 by Dua Fatima Online Urdu Novel Forced Marriage Based, Rude Hero and Innocent Heroine Based Pdf Urdu Novel Complete Posted on Novel Bank.
"ماہِ رو!"وہ بے تابی سے اسے پکارنے لگا۔
میں.... پاگل نہیں ہوں۔وہ ہلکی سی آواز میں بولی تھی ۔ حسان بمشکل اس کی بات سن پایا تھا۔ اسے یاد آگیا کہ اس نے جب پچھلی دفعہ اسے پاگل کہا تھا تو وہ کتنی ہائپر ہو گئی تھی لیکن اب وہ غصے میں ہونے کی بجائے اس حالت میں کیوں تھی۔ کیا کسی نے اسے پاگل کہا تھا۔وہ سوچنے لگا۔
ماہِ رو......."وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ وہ پھر بول پڑی۔
میں پاگل نہیں ہوں۔ اس کی آنکھیں سے آنسو بہہ نکلے۔
ہاں۔ تم پاگل نہیں ہو۔ اس نے ماہِ رو کی ہاں میں ہاں ملائی۔ وہ اسے اس زہنی کیفیت سے نکالنا چاہتا تھا۔
میں پاگل نہیں ہوں۔وہ ابھی بھی ہوش میں نہیں لگ رہی تھی۔
ہاں ۔ تم پاگل نہیں ہو ۔حسان نے اسے ایک جھٹکا دے کر پرزور لہجے میں کہا تو وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
سچ میں؟"وہ خود بھی بے یقین سی تھی۔ حسان سے اس وقت کوئی پوچھتا کہ اس دنیا میں سب سے معصوم اور پیارا کون ہے تو وہ بے اختیار ہی ماہِ رو کا نام لیتا۔
ہاں سچ میں۔ تم پاگل نہیں ہو۔"وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر اسے یقین دلانے لگا۔
لیکن ........وہ لوگ مجھے پاگل کہہ رہے تھے ۔وہ ایک طرف اشارہ کر کے بولی جیسے وہ لوگ ابھی بھی وہیں ہوں۔
وہ خود پاگل ہوں گے۔ تم پاگل نہیں ہو۔ وہ نرمی سے اس کے آنسو پونچھنے لگا تھا۔
تو پھر میں کیا ہوں؟"وہ رونا بھول کر معصومیت سے پوچھنے لگی۔ حسان کا دل عجیب سے انداز میں دھڑکا تھا۔ وہ خود پر اختیار کھونے لگا تھا۔
"تم تو ملکہ ہو۔ پریوں کی ملکہ۔"وہ نہیں جانتا تھا کہ اس وقت وہ کیا کہہ رہا ہے اور اوپر سے ماہِ رو کے لبوں پر مچلنے والی مسکراہٹ نے اس کے رہے سہے حواس بھی چھین لیے تھے۔ وہ بے خودی کے عالم میں اس کے چہرے پر دھیرے دھیرے سے جھکنے لگا تھا۔ وہ حسان جس کے پتھر سے بھی سخت دل پر آج تک کسی لڑکی کے حسن نے کبھی اثر نہیں کیا تھا وہ حسان آج ماہِ رو کی معصومیت دیکھ کر اپنا آپ بھول گیا تھا۔ ماہِ رو کے نازک سے وجود نے اس کے دل میں ہل چل مچا دی تھی۔ کاش وہ یونہی ساری زندگی اس کے بازوؤں میں پڑی رہے ۔ اس کے دل نے زور و شور سے دھڑک کر خواہش کی تھی۔
بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے
وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی
ماہِ رو جو آنکھیں بند کیے مسکرا رہی تھی اپنے چہرے پر گرم گرم سانسوں کی تپش محسوس کر کے آنکھیں پٹ سے کھول گئی۔ اور پلکیں جھپک جھپک کر اس اجنبی کے چہرے کو اپنے اتنے قریب دیکھنے لگی تھی۔ حسان اس کے آنکھیں کھولنے پر یکدم ہی ہوش میں آ گیا تھا اور جلدی سے اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اب اسے سمجھ آئی تھی کہ وہ کیا کرنے جا رہا تھا۔ اسے خود پر سخت غصہ آیا تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے گہرے سانس لینے لگا۔
تم کون ہو؟"ماہِ رو کے لہجے میں خوف تھا۔ وہ گڑبڑا سا گیا تھا۔ یہ بھی دن آنا تھا کہ حسان جو سب کو گڑبڑانے پر مجبور کرتا تھا آج اسے ایک چھوٹی سی لڑکی کے سامنے گڑبڑانا تھا۔ یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
میں.....میں .....جن ہوں۔"اسے اس وقت جو سمجھ میں آیا وہ بول گیا۔
ج....جن۔"ماہِ رو نے حیرت سے اپنی آنکھیں کھول کر اسے غور سے دیکھا۔ وہ واقعی اس وقت جن لگ رہا تھا۔
"تم ڈرو مت۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔"
اوئے تم سے ڈر بھی کون رہا ہے۔ میں پریوں کی ملکہ ہوں۔ تمہیں ایک منٹ میں بوتل کے اندر بند کر دوں گی۔"وہ اپنی لڑاکا جون میں واپس آگئی۔ حسان نے شکر کیا تھا کہ وہ اب نارمل ہو گئی ہے لیکن اپنے بے اختیار ہونے پر وہ اب بھی خود کو کوسنے میں مصروف تھا۔
"نہیں پریوں کی ملکہ۔ مجھے بوتل میں بند نہ کریں۔ میں تو آپ کا غلام ہوں۔"وہ اسے اسی کے طریقے سے ڈیل کرنے لگا۔ کیا پتہ وہ یہیں لڑائی شروع کر دیتی۔
"غلام؟"وہ تعجب سے بولی۔
"ہاں۔ ملازم۔"
"اوہ تو میرے قابو میں ایک جن آ ہی گیا؟"وہ خوشی سے مسکرائی تھی۔ اور یہ بات سچ بھی تھی۔ وہ ایک جن ہی تو تھا جو کسی لڑکی کے قابو میں نہیں آتا تھا اور اب اس کے بس میں تھا۔ حسان اس کے چہرے سے نظریں چرا گیا تھا۔ اب تو اس نے ماہِ رو کے قریب ہونے سے بھی توبہ کر لی تھی۔ یہ لڑکی تو اسے ایک جادو لگی تھی جس نے اس کے حواس کی چھین لیے تھے۔
"تم مجھے کچھ کہو گے تو نہیں؟"اس نے اپنا لہجہ حتی المقدور نارمل رکھا۔
"نہیں میں بس ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔"ساتھ ہی صفائی دینے لگی کہ وہ بالکل بھی نہیں ڈر رہی۔ حسان کے لب ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔ وہ سر جھٹک کر پھر اسے دیکھنے لگا۔
"نہیں۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ میں تمہارا دوست ہوں۔ تمہاری ہر بات مانوں گا۔ تمہاری ڈانٹ خاموشی سے سنوں گا اور تم جو کہو گی میں وہی کروں گا۔"وہ اسے اعتماد میں لینا چاہتا تھا ورنہ اس کی باتیں سننا اس کے بس سے باہر تھا۔ یہ شرطیں ماہِ رو نے ہی اسے بتائی تھیں اس کا دوست بننے کیلیے۔
"سچ میں؟"وہ چہک اٹھی۔ حسان سوچنے لگا کہیں کچھ ایسا ہی نہ کہہ دے کہ وہ کر نہ سکے اور اس کا بھانڈہ پھوٹ جائے۔
"ہمم۔"
"تو تم میرے لیے ابھی ایک پیزا لاؤ۔ "وہ کسی ملکہ کی سی شان کی طرح بولی تھی۔
"لیکن تم نے تو ابھی کھانا بھی کھانا ہے نا۔ اور آج تو چکن بروسٹ بنا ہے۔ اگر تم پیزا کھاؤ گی تو تمہاری بھوک ختم ہو جائے گی پھر چکن بروسٹ کیسے کھاؤ گی۔"وہ اس کا دھیان بٹانے لگا۔
"ہاں یہ تو ہے۔ آج عروج کی مہندی ہے نا۔ کھانے میں چکن بروسٹ تو ضرور ہو گا اور مجھے وہ بہت پسند ہے۔..... لیکن وہاں بہت سارے لوگ ہوں گے۔ میں وہاں نہیں جاؤں گی۔ تم مجھے یہیں لا دو۔ "
"یہاں اچھا نہیں لگے گا۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو وہ کیا کہے گا۔ تم ایسا کرو جا کر ایک جگہ کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ میں تمہیں وہاں کھانا لا دوں گا۔"اس نے مشورہ دیا تو ماہِ رو مان گئی اور اٹھنے لگی لیکن لڑکھڑا گئی۔حسان نے اسے سہارا دیا۔
"ہم کہاں ہیں۔ وہ اتنی دور کرسیاں پڑی ہیں۔ میں وہاں تک کیسے چل کر جاؤں گی؟"وہ گھبرا کر بولی۔
"تم جا سکو گی ماہِ رو۔ کوشش کرو۔"
"نہیں جا سکوں گی۔ تم مجھے اٹھا کر لے جاؤ نا۔"وہ بولی تو حسان بدک کر پیچھے ہوا۔
"نہیں۔ اگر میں تمہارے ساتھ ہوا تو لوگ مجھے دیکھ لیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ تمہارے پاس ایک جن ہے۔"
"تو تم غائب ہو جاؤنا۔ "
"ابھی میں غائب نہیں ہو سکتا۔"وہ اسے صفائیاں دیتے دیتے تھک گیا۔ یہ لڑکی ایک دن میرے دماغ کی دہی بنا کر چھوڑے گی۔اس نے جل کر سوچا تھا۔
"تم کیسے جن ہو۔ غائب بھی نہیں ہو سکتے اور نہ میری کوئی بات مان رہے ہو۔ نااہل جن۔ "وہ بگڑ گئی۔
"وہ دراصل مجھے میری ماما بلا رہی ہیں۔ مجھے جانا ہو گا ورنہ بہت ڈانٹ پڑے گی۔"وہ بہانہ بناتے ہوئے بولا۔ ماہِ رو کو ڈانٹ سے یاد آیا اگر نایاب کو پتہ چل گیا کہ اس کے پاس جن ہے تو وہ پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا کرے۔ اس لیے اس نے جن کے ساتھ جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔
"ٹھیک ہے۔ میں اکیلے ہی چلی جاتی ہوں۔ اگر چڑیل کو پتہ چل گیا نا تو وہ میرا گلا دبا دے گی۔"حسان کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کس چڑیل کی بات کر رہی ہے۔ لیکن اس نے پوچھا نہیں کیونکہ وہ ابھی اسے خود سے دور بھیجنا چاہتا تھا۔
🖤🖤🖤🖤
"ماہ!"حسان پریشانی سے اسے دیکھنے لگا تھا۔
"مجھے بہت درد ہو رہا تھا۔ ....... میں نے تمہیں کہا بھی تھا مجھے چھوڑ کے مت جانا لیکن تم چلے گئے۔ ......تم بہت برے ہو۔ "
"آئی ایم سوری ماہ۔ آئیندہ ایسا نہیں کروں گا۔ تم رونا بند کرو ۔ ہمم۔"وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا تھا۔ ماہِ رو کو مزید رونا آ گیا۔
"اب مجھے رونا آ رہا ہے تو میں کیا کروں۔"وہ چڑ کر بولی۔
"تم مجھے برا بھلا کہہ لو لیکن پلیز روؤ مت۔"وہ اس کا دھیان بٹانے لگا
"سچ میں؟"وہ یکدم چہکی تو حسان نے بمشکل مسکراہٹ چھپائی اور سر اثبات میں ہلا دیا۔
"تم پھر مجھے کچھ کہو گے تو نہیں۔"وہ لبوں پر شرارتی مسکان لیے اس سے پوچھ رہی تھی۔
"نہیں۔"حسان یک ٹک سا اس کے خوبصورت چہرے کو مسکراتے دیکھ رہا تھا۔
"تم ایک ڈائن ہو۔"وہ کہہ کر بہت زور سے ہنسی تھی۔ حسان صدمے سے منہ کھول گیا تھا۔
"یہ کیا؟...... مجھے جن کہہ لو لیکن یہ مؤنث تو نہ بناؤ۔"وہ ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے بولا۔
"دیکھو تم نے وعدہ کیا ہے تم مجھے کچھ نہیں کہو گے۔"وہ اسے اس کا وعدہ یاد دلانے لگی۔ وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔
"تم ایک موٹی بوڑھی جادوگرنی ہو ۔ اور.....اور تم شیطان کی بہن ہو۔"وہ جان بوجھ کر اب اسے مونث میں برا بھلا کہہ رہی تھی۔
"یہ اب کچھ زیادہ نہیں ہو گیا ماہ۔"وہ غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا تھا۔
"تم پھر میرے سامنے بول رہے ہو۔ اگر اب تم نے مجھے روکا تو میں رونا شروع ہو جاؤں گی۔"وہ اس وقت بالکل بچی بنی ہوئی تھی اور حسان چاہ کر بھی اس پر غصہ نہیں کر پا رہا تھا۔ پھر ماہِ رو نے اسے مختلف ناموں سے نواز کر اپنے دل کی اچھی طرح بھڑاس نکالی تھی اور حسان کا دماغ گھومنے لگا تھا۔ اس منہ پھٹ لڑکی سے ہمدردی کرنا اور اسے کمپنی دینا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگا تھا۔ لیکن اس کا دل پرسکون تھا کیونکہ ماہ رو تکلیف میں نہیں تھی بلکہ خوش تھی۔ اس کی خوشی کیلیے تو وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
"ہیلو۔ آئی ایم …..ماہِ رو۔ اینڈ یو۔"کیا اعتماد تھا اس کا۔ کیا لہجہ تھا۔ حسان تو حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچا تھا۔ یہ وہ ماہِ رو نہیں تھی جو ڈری سہمی اور معصوم سی تھی۔ وہ ہونقوں کی طرح منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔ ماہِ رو نے ابرو اچکائی تو اس نے چہرہ پھیر کر گہری سانس لی اور ماہِ رو کو ایک دفعہ پھر نیچے سے لے کر اوپر تک دیکھا۔ مطلب ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں۔ دانت پیستے ہوئے حسان نے سوچا اور ماہِ رو کا ہاتھ تھام کر اسے زور سے اپنی طرف کھینچا تھا۔ وہ جب حسان کے سینے لگی تو اس کا دل تیزی سے دھڑک اٹھا تھا۔ بھئی اب وہ پہلے والی ماہِ رو تو نہیں رہی تھی جو رومینس کا مطلب نہ سمجھ پاتی۔ اب وہ میچور ہو چکی تھی ۔ موویز اور ڈرامے دیکھ دیکھ کر اب وہ کافی حد تک رومینس سے واقف ہو چکی تھی۔ اب اسے اپنے اور حسان کے وہ رومینٹک مومینٹس یاد آتے تو شرم سے پانی پانی ہونے لگتی تھی۔
"بتاؤں تمہیں کون ہوں میں؟"وہ اس کے گرد بازوؤں کا حصار باندھتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں بولا تھا اور ٹھوڑی اس کے سر پر ٹیک گیا تھا۔ پہلے وہ اس کے سینے کے برابر تھی لیکن اب ہائی ہیل پہنے کر وہ اس کی ٹھوڑی تک پہنچ رہی تھی۔ ماہِ رو کچھ پل ساکت سی اس کی دھڑکنوں کا شور سنتی رہی تھی۔ کتنا ہی عرصہ بیت گیا تھا اسے اس دل کی پکار سنے۔ وہ اس میں کھونے لگی تھی لیکن جب اسے اپنی ناراضگی اور اس کی بے وفائی یاد آئی تو دونوں ہاتھ اس کے سینے سے لگا کر پورا زور لگاتے ہوئے اسے پیچھے دھکا دے دیا۔
"جی بالکل۔ بتائیں لیکن دور سے۔"اس کا لہجہ مزید اجنبی ہو چکا تھا۔
"بہت ناراض ہو مجھ سے؟"وہ دلگرفتی سے پوچھنے لگا
"اجنبیوں سے ناراض نہیں ہوا جاتا۔ "اس کی بات سن کر حسان حیرت سے "اوہ" بولا تھا۔
"بڑی گہری گہری باتیں کرنے لگی ہو۔ کانفیڈینس بھی بہت اچھا ہے۔ بہادر بھی ہو گئی ہو۔ آئی ایم ایمپریسڈ۔"
"You taught me well. It's your kindness."
اس کی آنکھوں میں وہ منظر چلنے لگے تھے جب حسان اسے اپنے حکم پر چلاتا تھا۔ زبردستی اسے ہر کام سکھاتا تھا۔ وہ اس سے جتنا بھی ناراض ہوتی لیکن وہ یہ کھلے دل سے مانتی تھی کہ آج وہ جو کچھ تھی حسان کی وجہ سے ہی تھی۔
"یار اب مجھے مت روکنا۔"اسے تو اب ماہِ رو پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا لیکن ماہِ رو نے جلدی سے اسے دھکا دے دیا۔ وہ پاس پڑے بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے کہ ماہ رو وہاں سے بھاگتی حسان نے اس کی کلائی پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔ اور وہ اس کی گود میں گری تھی۔ پہلے تو وہ بڑے شوق سے اس کی گود میں بٹھتی تھی لیکن اب اسے بہت شرم آ رہی تھی۔ وہ اپنی اتھل پتھل ہوتی دھڑکنوں کو قابو کرتی اس کی گود سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی لیکن حسان کی گرفت سخت تھی۔
"چھوڑیں مجھے۔ میں آپ سے ناراض ہوں۔ "وہ غصے سے چیخی تھی۔
"اس کا مطلب ہم اجنبی نہیں ہیں۔"وہ دلچسپی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"اجنبی نہیں تھے لیکن اب ہیں۔ "وہ باور کرواتے لہجے میں بولی تھی۔ حسان اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"سوری۔ میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا۔"وہ شرمندگی سے بولا تھا۔ ماہِ رو استہزائیہ ہنسی۔
"معاف تو بالکل بھی نہیں کروں گی آپ کو۔ ناؤ لیو می ۔ مسٹر حسان ارسل۔"وہ غصہ کرتے ہوئے بھی کمال کی پیاری لگ رہی تھی۔ حسان نے بے اختیار اس کے لبوں پر جھکا تھا اور محبت کی مہر لگا کر جب پیچھے ہٹا تو ماہِ رو کا سرخ لال چہرہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ اس کی پلکیں لرز کر جھک گئی تھیں۔ وہ اس سے شرما رہی تھی۔ مطلب وہ اس کے اور اپنے تعلق کو پہچان گئی تھی۔ اس کا یہ روپ حسان نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ اور وہ بہت محظوظ بھی ہوا تھا۔ اس کا دل کیا تھا وہ ماہِ رو کو مزید تنگ کرے ۔ وہ دوبارہ اس پر جھکنے لگا تھا کہ ماہِ رو نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا۔
"شیم آن یو سنی۔ آئی ول کل یو۔"وہ بھڑکی تھی۔ اور حسان کا قہقہہ گونجا تھا۔
"اوہ مائی لٹل فیری کوئین۔ تم شرماتی بھی ہو۔ "وہ اس کے چہرے ہاتھ ہٹاتے ہوئے مسکرا کر بولا تھا۔
"میں چیخنے لگ جاؤں گی۔"اب اس کا غصے سے برا حال تھا۔
"اوکے اوکے۔ یہ لو چھوڑ دیا۔"حسان نے اسے چھوڑا تو وہ جلدی سے اٹھ کر اس سے دور ہوئی تھی۔
"اب آپ یہاں سے جائیں گے یا میں جاؤں؟"اس کا لہجہ سخت تھا۔
"اکٹھے ہی رہ لیتے ہیں نا ۔"وہ بیڈ پر دونوں ہاتھ ٹکا کر بڑے مزے سے بولا تھا۔ ماہِ رو نے دانت پیسے۔
"میں ہی چلی جاتی ہوں۔ "وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
"رکو ۔ جا رہا ہوں میں۔"حسان اٹھتے ہوئے بولا تو ماہِ رو رک کر اسے دیکھنے لگی جیسے اس کے جانے کا انتظار کر رہی ہو۔ حسان نے گزرتے ہوئے اس کے گال پر ایک کس دے دی اور پیچھے سے وہ اسے کتنی ہی دیر مختلف القابات سے نوازتی رہی۔
Or