Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Online Urdu Novel Episode 20 Posted on Novel Bank.
مناہل کمرے میں تھی۔ قلب شاید ناصرہ بیگم کو کھانا کھلانے گیا تھا۔ مناہل جلدی سے کمرے سے باہر آئی۔ وہ اس سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔
تبھی سوچا کہ تھوڑی دیر کچن میں بیٹھا جائے جب وہ اپنے کمرے میں چلا جائے گا تو وہ ناصرہ بیگم کے پاس چلی جائے گی۔
ابھی کچھ سیکنڈز ہی گزرے تھے بیٹھے جب وہ اطمینان سے کچن میں آتی دکھائی دی۔
اسلام وعلیکم،،، ازکی نے اطمینان سے سلام کیا۔
تم یہاں،، تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے کچن میں قدم رکھنے کی،،
مناہل غرائی تھی۔
چل کرو یار،،، اور شئیرنگ کی عادت ڈال لو،،، میں مینج کرو گی تو تھوڑا سا تم بھی کر لینا،، اور تم کچن کی بات کر رہی ہو میں تو قلب کے آدھے قلب میں بھی قدم رکھنے کا سوچ رہی ہوں،، آخر اس کے دل پہ میرا نام تو لکھا ہی ہے تو اس کی زندگی اور گھر میں تھوڑی سی جگہ تو بنا ہی سکتی ہوں،،
وہ سکون سے بولی تھی۔ جبکہ مناہل کے چہرے نے لہو چھلکایا تھا۔
حیرت کی بات ہے وہ لڑکی جو اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے اپنے آشنا سے افئیر چلاتی رہی،، اور عین اپنے نکاح کے روز اس آشنا کو چھوڑ کر فرار ہوگئی،،اور پھر زمانے بھر میں رسوا ہو کر ،، گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر دوبارا اس کی ہمدردی کا فائدہ اٹھا کر اس کی زندگی میں شامل ہونے کا سوچ رہی ہے تو تف ہے اس کی سوچ پر اور لعنت ہے ایسی زندگی پر جس میں خودداری نام کی کوئی چیز ہی نا ہو،، سیلف رسپیکٹ کسے کہتے ہیں یہ تو تمھیں پتہ ہی نہیں اسی لئے مجھے تم سے نفرت نہیں ،، میرے شوہر کی طرح تم سے ہمدردی ہی ہو سکتی ہے اور رہی بات میرے شوہر کی تو کونسا نام وہ جو وہ کسی حرام مردار کی طرح کب کا کھرچ کر خود سے دور پھینک چکا ہے،،، اب وہ جسے اپنے گھر میں اٹھا کر لایا ہے وہ محض ایک ان چاہا بوجھ ہے جو وہ بہت جلد اٹھا کر اپنے گھر سے باہر کہیں بھی پھینک دے گا،،،
مناہل بھی سکون سے بولی تھی۔ اور اس کا لفظ لفظ ایسا شہر بجھا تیر تھا جو سامنے والی جو آئینہ دکھاتے ہوئے زلیل وخوار کف گیا تھا۔ اہانت، زلف اور بے عزتی کے احساس سے اس کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ پڑ گیا تھا۔
تبھی وہ وہاں اپنی جگہ پر جم چکی تھی۔
میں کہیں نہیں جاؤں گی اب سنا تم نے ،، میں اس کی زندگی میں شامل ہونے آئی ہوں اور ہو کر رہوں گی،، اور مجھے ایسا کرنے سے تم بھی نہیں روک پاؤ گی،،
وہ پھنکاری تھی۔
اچھا کوشش کر کے دیکھ لو،،
مناہل نے اطمینان سے کہا اور دوبارا انھیں قدموں سے چل کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔
پھر ادھر رکی تو وہ بھی نہیں تھی وہاں سے فورا اوپر اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
مرتضیٰ ٹرے میں کھانا نکال کر ناصرہ بیگم کے پاس ان کے کمرے میں آیا تھا۔
امی کھانا کھا لیں،،، اس نے ان کے سامنے کھانا رکھا۔ ناصرہ بیگم مسکرائیں تھیں۔
بلکہ آج جانے کیوں میرا دل کر رہا ہے کہ میں اپنے ہاتھوں سے آپ کو کھانا کھلاؤں،،، مرتضیٰ نے ان کا ماتھا چوم کر کھانے کا پہلا نقالی توڑا اور ان کے منہ میں ڈالا۔
اپنی بیگم کو تو کھلا تو اور اپنے منے یا منی کو ،، وہ بھی تو بھوکے ہوں گے،،،،
ناصرہ بیگم کو اس کی فکر ہوئی جو صبح کی بھوکی تھی۔
اسے میں کھلا دوں گا امی ،،پہلے آپ کھائیں،،اسکی فکر مت کریں،، میں اس چوہیا کا خیال رکھ لوں گا،،
مرتضیٰ،،،،،،،،، ناصرہ بیگم نے اس کا نام کھینچ کر ادا کرتے اس کو گھرکا۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔
مناہل کا بہت زیادہ خیال رکھنا مرتضیٰ،،، ناصرہ بیگم نے سادگی سے کہا۔
کیوں آپ ہیں ناں اپنی اس لاڈلی کا خیال رکھنے کو،،، مرتضیٰ نے بھی سکون سے کہا۔
ہاں میں تو ہوں ،،، مگر اب اسے زیادہ توجہ اور محبت کی ضرورت ہے،، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا ،، میں رکھوں ناں رکھوں تم اس کا بہت خیال رکھنا،، اسے کبھی میری بھی کمی محسوس مت ہونے دینا،،
ناصرہ بیگم جانے کیا کہنا چاہتی تھیں۔ مرتضیٰ انھیں کھانا کھلاتا رہا۔ جب وہ کھا چکیں تو ہاتھ سے اشارہ کر دیا۔ مرتضیٰ نے ٹرے اٹھائی۔
امی آپ آرام کریں ،،، تہجد کے وقت بھی اٹھنا ہے آپ کو پھر،،، اپنی بیٹی کی تو پڑی ہے اپنا بھی خیال رکھا کریں،،، تبھی تو اپنے پوتا پوتی کو گود میں لیے گوما کریں گی آپ،،،
مرتضیٰ نے مسکراتے کہا۔ تو ناصرہ بیگم بھی مسکرا دیں۔ مگر اسکی بات پر جانے کیوں آج انشاللہ نہیں کہا تھا۔
مرتضیٰ کو عجیب تو لگا مگر وہ ٹرے لیئے واپس کچن میں آیا۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
آج تو ویٹر ہی بن گیا ہے قلب مرتضیٰ،، وہ اپنے اور مناہل کے لیے کھانا نکالتے ہوئے بڑبڑایا۔ اور کھانا نکال کر کمرے کی جانب آتا ایک گہرا سانس اندر کھینچا کہ اب اسے کافی تحمل اور سکون کی ضرورت تھی۔
وہ اندر آیا تو وہ بیڈ پر ہنوز گھٹنوں میں منہ دئیے اپنے بازو گھٹنوں کے گرد فولڈ کیے رونے کا شغل فرما رہی تھی۔
روندو کہیں کی،،، مرتضیٰ بڑبڑایا اور اس کے سامنے کھانے کی ٹرے رکھی۔
اس کے سامنے بیٹھ کر وہ اب اس کے لیے نوالا بنا رہا تھا۔ مناہل نے سر ہی نہیں اٹھایا۔
مرتضیٰ نے نوالہ بنایا اور اس کی جانب بڑھایا۔ اس کے بازو کھولے اور آنسوؤں سے تر چہرہ اوپر اٹھایا۔
کھانا کھاؤ منوو،،،،
مرتضیٰ نے اس کی بھیگی آنکھوں میں دیکھتے نرم لہجے میں کہا۔
نہیں کھانا،، بھوک نہیں ہے مجھے،، مناہل نے اس کی جانب سے رخ پھیرا۔
منوو مجھے ذبردستی کرنے پر مجبور مت کرو،، مرتضیٰ نے زرا اب لہجہ سخت کیا تھا۔
اس کے علاوہ اور آتا ہی کیا ہے آپ کو،،،
یہ بول کر وہ پھر رو پڑی۔ مرتضیٰ کو ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا۔
Online Reading