Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Online Urdu Novel Episode 18 Posted on Novel Bank.
دو ماہ بعد۔
وہ آج پھر حیات صاحب کے سامنے سر جھکائے کھڑا منت فریاد کر رہا تھا۔
پلیز بابا معاف کر بھی دیں مجھے،، میں شرمندہ ہوں،، آپ کے سب الزام شکوے ،،شکایات بجا لیکن وہ میری بیوی ہے،، میری زمہ داری،، جسے نبھانے میں، میں کامیاب نا ہو سکا پر پلیز ایک موقع دے دیں بابا میں آپ کی سب شکایتیں دور کر دوں گا،، اب کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا،، اسے پلیز میرے ساتھ بھیج دیں،،
وہ ملتجی لہجے میں بولا تھا۔
راحم ابرک حیات،، دفع ہو جاؤ یہاں سے ،، میرا پہلا اور آخری فیصلہ یہی ہے کہ منیہا تمھارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی،، طلاق نہیں دینی نا دو،، اب میں سیدھا کورٹ جاؤں گا،، اور اسے خلع دلواؤں گا،،
حیات صاحب نے دو ٹوک انداز میں اسے کہا اور باہر کا راستہ دکھایا۔
وہ آج پھر دھتکار دیا گیا تھا۔ لاہور سے زلیل ہو کر تھکا ہارا واپس آیا تھا۔ یہ دو ماہ پل پل اس نے اذیت کی انتہا میں گزارے تھے۔ دو ماہ میں کوئی دسیوں چکر وہ لاہور کے لگا چکا تھا۔ مگر اس کے بابا ایسے بگڑے تھے کہ اسے معاف کرنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
اوپر سے وہ جب بھی لاہور آتا۔ وہ جانے کہاں چھپ جاتی۔ جس کی ایک جھلک دیکھنے کو وہ بے تاب تھا۔ مگر وہ اس کے سامنے نہیں آتی تھی۔ کہ حیات صاحب کا سختی سے حکم تھا کہ نا وہ اس کے سامنے آئے گی۔ نا اس کے ساتھ جائے گی نا گھر کی دہلیز پار کرے گی۔ راحم ہر مرتبہ نامراد واپس لوٹ آتا تھا جیسا کہ کل لوٹا تھا۔
آج آفس میں دن یونہی کسلمندی لیے گزرا تھا۔ بیزار اور اکتایا سا وہ گھر آیا۔
لاونج میں داخل ہوا تو سامنے سامان پڑا دیکھا۔ راحم نے ایک گہری سانس اپنے اندر کھینچی۔ مطلب علشبہ واپس آ چکی تھی۔
آج ان کی شادی کو تقریباً دو ماہ کچھ دن ہونے والے تھے۔ پچھلے تین ہفتے سے علشبہ اپنی ماں کے گھر پر تھی۔
کچھ بھی تو ٹھیک نہیں تھا۔ وہ عشوو کے ساتھ بلکل نارمل تھا۔ مگر ان کا رشتہ ابھی تک آگے بڑھ ہی نہیں پایا تھا ۔ نا ہی مکمل ہو پایا۔
اس عرصے کے دوران علشبہ نے اسے اپنی جانب مائل کرنے کے ہزار جتن ہزار گر آزمائے تھے۔ مگر وہ گھوڑے کی لگام کھینچ کر اسے ندی تک کھینچ کر لے جا سکتی تھی مگر اسے زبردستی پانی پینے پر ہر گز مجبور نہیں کر سکتی تھی۔ تبھی وہ بھی ابھی تک نامراد اور ادھوری تھی ۔
یوں بھی انسان جو دوسروں کے لیے برا سوچتا ہے آخر یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ وہ برائی لوٹ کر اسی کے دامن کو آ لپٹے گی۔
راحم اندر داخل ہوا تو وہ کچن سے نکلی تھی۔
کل آپ پھر لاہور گئے تھے،، کیا ہوا پھر واپس آ گئے ٹھوکریں ٹھڈے کھا کر،، نہیں قبول کیا چہیتی نے،، شاید کوئی اور پسند آ گیا ہوگا،،
وہ سکون سے بولی۔
پہلے تو راحم نے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اس کی گوہر افشانی ملاحظہ کی۔ پھر اس کی جرات اور زبان درازی پر غصے سے پاگل ہو گیا۔
بکواس بند کرو عشوو ،، حد میں رہو اپنی،،
وہ دھاڑا۔
کمال ہے،، میں نے تو سچ کہا اب آپ کو کڑوا لگ گیا تو میں کیا کروں،،،
وہ لاپرواہی سے بولی۔
اپنی حد میں رہو عشوو،،، اور یہ کس لہجے میں؟؟کس طریقے سے بات کر رہی ہو تم مجھ سے،،،
راحم نے عجیب انداز سے اس کے بدلے بدلے تیور دیکھے۔ (جسے شاید میکے والوں نے پٹیاں پڑھا کر بھیجا تھا۔)
راحم تلملاتا اپنے کمرے میں آیا تھا۔ اذیت ہی اذیت تھی۔ وہ علشبہ سے اپنی پسند (اس سے وقتی اٹریکشن ) کو محبت سمجھ بیٹھا تھا۔
اور جس کی محبت اس کی رگوں میں سرایت کر چکی تھی اسے اپنے ہاتھوں سے ہی گنوا بیٹھا تھا۔
وہ منیہا سے کس قدر محبت کرتا ہے اس بات کا تدارک ہوتے کافی دیر ہو گئی اور محبت ہاتھ سے سوکھی ریت کی مانند پھسل گئی۔ علشبہ کے ساتھ یہ دن گزار کر پتہ چلا کہ اسے تو اس میں دلچسپی تھی ہی نہیں۔ تبھی ابھی تک اس کے دل میں اس کی قربت کی خواہش کبھی جاگی ہی نہیں۔ اور اسی لئے ہی علشبہ کے راحم کو اپنی جانب راغب کرنے کے باجود وہ اس کی جانب متوجہ نا ہو پایا۔ اور ان میں میں کبھی کوئی ریلیشن بن ہی نہیں پایا۔
منیہا کے دور ہونے پر اسے اس کی اہمیت کا احساس ہوا۔
تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا
ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزو کرتے
مگر پھر آرزوؤں کا بکھرنا بھی ضروری تھا
بتاؤ یاد ہے تم کو وہ جب دل کو چُرایا تھا
پرائی چیز کو تم نے خُدا کا گھر بنایا تھا
وہ جب کہتے تھے میرا نام تم تسبیح میں پڑھتے ہو
محبت کی نمازوں کو قضاء کرنے سے ڈرتے ہو
مگر اب یاد آتا ہے وہ باتیں تھی محض باتیں
کہیں باتوں ہی باتوں میں مُکرنا بھی ضروری تھا
وہی ہیں سورتیں اپنی وہی میں ہوں وہی تم ہو
مگر کھویا ہوا ہوں میں مگر تم بھی کہیں گُم ہو
محبت میں دغا کی تھی سو کافر تھے کافِر ہیں
مِلی ہیں منزلیں پھر بھی مُسافِر تھے مُسافِر ہیں
تیرے دل کے نکالے ہم کہاں بھٹکے کہاں پہنچے
مگر بھٹکے تو یاد آیا بھٹکنا بھی ضروری تھا
محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا
راحم ابرک حیات کو منیہا راحم سے دھواں دھار قسم کی محبت ہوئی تھی۔ اسے اپنے سامنے دیکھنے کی خواہش رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی تھی۔ اس کی قربت کی خواہش دل میں ایک پھانس سی جگاتی تھی۔ اس کی خوشبو کا وہ دیوانہ ہو چلا تھا۔ اس کی خوشبو اس کے لیے ایک نشہ تھی۔ جس کے بغیر اس کا تن بدن ٹوٹتا تھا۔
وہ تو اسی دن دل و جان سے قبول کر چکا تھا جب منیہا نے حیات صاحب کے سامنے اس نظر انداز کرتے اپنا فیصلہ حیات صاحب کے حق میں دیا تھا۔ اسی وقت اسے کھونے کے احساس نے راحم کے دل میں سویاں چبھو ڈالی تھیں۔
راحم تڑپ رہا تھا منیہا راحم کے لیے۔ جسے خود اس نے خود سے دور کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ محبت کی قدر نا کی جائے تو وہ اپنے بے قدرے سے بڑا بھاری خراج وصول کرتی ہے۔
اسی لئے یہ سب ہو رہا تھا اس کے ساتھ۔ وہ جل رہا تھا ۔ مر رہا تھا۔
ہر رات اس پر بھاری پڑتی تھی۔
جیساکہ یہ رات پھر سے آنکھوں میں کٹی تھی۔ اسکی آنکھیں کئی راتوں کے رت جگوں کی غماز تھیں۔
راحم جو اس کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا۔ صبح ہوتے ہی پھر گھر سے گاڑی لے کر باہر نکلا ۔ تنی رگیں۔ لال انگارا آنکھیں اور آنکھوں میں بار بار آتی نمی۔ کچھ سوچ کر مرتضیٰ کو کال ملائی۔
نیچے دئے ہوئے آنلائن آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔
Online Reading