Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Complete Novel


Hubb e Aneed Online Urdu Novel by Wahiba Fatima Contract Marriage Based, Second Marriage Based and Urdu Romantic Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.

آج پھر مناہل کو بس سٹاپ پر دیکھ کر مرتضیٰ کے تن بدن میں آگ لگی تھی۔ پھر سے وہی منظر دیکھ کر اس کا خون کھولا تھا۔ کہ اس کی عزت پر کئی غلیظ نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ 

کار کے پہیے پیروں میں چرچرائے تو مناہل اپنی جگہ سے اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹیں تھی۔ مگر اسے جارحانہ تیوروں کے ساتھ اپنی جانب آتا دیکھ مناہل کے گلے میں گٹھلی سی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔ 

کچھ بھی کہے بغیر مرتضیٰ نے اس کی کلائی دبوچی اور کچھ بھی کہے سنے بغیر اسے  تقریباً گاڑی میں پٹخا تھا۔ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر تیزی سے گاڑی سٹارٹ کی۔ 

آپ مجھ پر یوں دھونس نہیں جما سکتے،، سنا آپ نے،، جو بھی جیسے میرا دل چاہے گا میں وہ کروں گی،، آپ مجھے نہیں روک سکتے،،، کوئی حق نہیں آپ کا مجھ پر،، سمجھے آپ،،، 
وہ پھٹ پڑی تھی۔ اور رونے کی بجائے سارا غصّہ اور ڈر اس پر پلٹ دیا۔ 

ٹھیک ہے ،، حق کی بات ہے تو آج اپنے سارے حقوق وصول کروں گا میں تم سے پیاری بیوی،، اور جب ہمارے اس  رشتے کا احساس تمھاری رگوں میں اترے گا تو پھر شاید تمہیں اچھے سے سمجھ آ جائے کہ میرا کیا حق ہے تم پر،،، 

سو سنار کی ایک لوہار 
والا حساب ہوا تھا کہ مناہل اپنی جگہ سٹپٹا کر دم سادھ گئی۔ سر جھٹک کر سکون سے پیٹھ موڑ کر بیٹھ گئی۔ اب اس ڈریکولا کے کون منہ لگتا ۔اسے لگا بات آئی گئی ہو گئی۔ 
مگر کاش ایسا ہوتا۔ 

باقی کا وقت بہت بوجھل گزرا تھا جب ڈنر کے ٹیبل پر کھانا کھاتے ہوئے ناصرہ بیگم کے سامنے اس نے شوشا چھوڑا تو مناہل کراہ کر رہ گئی ، ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے۔ اس کا دل کیا وہ وہی زمین میں گڑھ کر مر جائے گی۔ 

منوو کچن کا کام سمیٹ کر دودھ کا گلاس لے کر اپنے روم میں آ جانا،، آج سے تمھیں ہمارے کمرے میں سونا ہے،، امی سمجھا دیں اپنی پیاری بیٹی کو،، 
بہت سنجیدگی سے وہ اتنی بے باکی سے بولتا وہاں سے یہ جا وہ جا کہ مناہل کا دل کیا وہ کہیں چھپ جائے یا منظر سے غائب ہو جائے۔ وہ تیزی سے اٹھی اور کچن سمیٹنے لگی۔ ساتھ ساتھ دل میں اسے شان میں کئی کلمات ادا کیے۔ 

کام سے فری ہو کر اس کا بیہودہ حکم پس پشت ڈال کر وہ ناصرہ بیگم کے کمرے کی جانب آئی تھی۔ کمرے میں داخل ہی ہوئی تھی جب۔ 

مناہل ،،، میری جان جاؤ اپنے کمرے میں جاؤ،،، ناصرہ بیگم نے ایسی یاس بھرے لہجے میں اسے کہا تھا کہ مناہل کا دل کٹ کر رہ گیا۔ 

لیکن پھپھو امی،،،،،، اس نے بری طرح اپنے لب کاٹے۔ 
جاؤ مناہل،،،، انھوں نے پھر نرمی سے کہا۔ مناہل نے بری طرح اپنے لب کاٹے۔ دن کی دی گئی اس کی دھمکی یاد آئی تو وہ پھر مرنے والی ہو گئی۔ مگر مرتے کیا نا کرتے کے مصداق ہر صورت شیر کی کچھار میں جانا تھا آج۔

All Complete Episodes 


























Related Posts

Subscribe Our Newsletter